پاکستان کا اک مقصد تھا ۔ مقصد پاکستان نہیں تھا ۔

اس سب سے بڑی ہجرت کے گواہ اور شریک رہے ہیں .

ان سے ان دنوں کے واقعات سننے کی ضرورت ہے .

کتابوں میں بہت مواد موجود ہے لیکن first hand information یا آنکھوں دیکھا حال , جو اثر چھوڑتا ہے, وہ دیرپا ہوتا ہے.

میرے والد اگست 1947 میں بارہ سال کی عمر کے تھے . کئی بار ان سے وہ حالات سنے .

دہلی سے اپنے گھر کو کنڈی لگا کر پورا خاندان نکلا , لاشوں کو پھلانگتے ہوئے اور ٹرکوں میں بھر کے یا چھپ کر دوسرے علاقے کی ایک حویلی میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جان بچانے کو ٹہرے . پھر دادا نے اورئئنٹ ائیر ویز کے ایک طیارے میں تیس بتیس افراد کیلئے ٹکٹ لیں, جانا کراچی چاہتے تھے , جہاں کچھ رشتے دار مقیم تھے , لیکن ٹکٹ رسالپور کے ہی دستیاب تھے . چنانچہ رسالپور , پھر پشاور پہنچے. دادا کاروبار کے سلسلے میں ہندو پاک میں سفر کا تجربہ رکھتے تھے. ایک واقف نے اپنا گھر پیش کیا . اتنی مہمان نوازی کی کہ دادا کے والد نے دو دن بعد کہا کہ یہاں سے چلو , ہم ان کی عنایات کے تلے دب گئے ہیں .

ایک بس میں خاندان راولپنڈی پہنچا. Custodian دفتر سے ایک خالی فلیٹ میں رہنے کا کاغذ پکڑا. ( یہ وہ گھر تھے جو ہندو اپنی ہجرت کے وقت خالی کر گئے تھے ) . بالٹی میں دال چاول پکائی گئی . دادی نے انڈے ابال کر دیے جو میرے والد نے صدر بازار راولپنڈی میں کچھ روز فروخت کئے. کچھ روز کیلئے دادا واپس دہلی گئے اور جہاں کام کرتے تھے , ان کے خاندان کو پاکستان شفٹ کیا. پھر اپنے خاندان کے ساتھ راولپنڈی سے کراچی منتقل ہوئے.

نہ ختم ہونے والے واقعات ہیں . ہم میں سے جن کے اوپر اس جنریشن کے بزرگوں کا سایہ موجود ہے , ضرور اس وقت کی باتیں سنیں , یاد رکھیں اور اپنے بچوں کو سنائیں . تاکہ اس ملک کی قدر ہمیں محسوس ہو . جن قربانیوں کے ساتھ ایک قوم ایک نئے خطہ ارضی کیلئے دربدر ہوئی, ان کو یاد رکھیں