ڈاکٹر صاحب ۔ یہ رپورٹس واٹس ایپ کررہا ہوں ۔ دیکھ کر بتا دیں ۔ کوئی مشورہ ؟

اس قسم کے پیغامات عام ہو گئے ہیں ۔ خاص طور پر کووڈ کے دور کے بعد ، جب ڈاکٹر سے ملنا کچھ عرصہ ممکن نہیں تھا ۔ یہ طرز عمل اگرچہ بھیجنے والے کی سہولت پر مبنی ہے ، گھر بیٹھے ایک کلک سے مفت مشورہ بھی مل گیا ، ایک چھوڑ دس دوست ڈاکٹروں کی رائے بھی آگئی ، جس دوست کی رپورٹ بھیجی تھی ، اس کی مدد بھی کردی ۔ اور کیا چاہیے! اکثر لوگ لیبارٹری کے ٹیسٹ ہی کو اہم سمجھتے ہیں (کچھ ڈاکٹر بھی) ۔ لیکن طبی علاج میں سب سے پہلے مریض سے علامات اور کچھ سوالات کیے جاتے ہیں ، (جسے ہسٹری کہتے ہیں) ۔ اس کے بعد معائنہ ۔ پھر اگر ضروری ہو تو ٹیسٹ ۔ اور ان سب کی روشنی میں تشخیص ۔ اور پھر حل ، یا علاج تجویز کیا جاتا ہے ۔ صرف ٹیسٹ کی رپورٹ سے نتیجہ اخذ کرنا اکثر ممکن نہیں ہوتا ، اور کبھی کبھی نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے ۔ دوسری طرف ، کبھی کوئی ٹیسٹ رپورٹ نارمل ہوسکتی ہے ، جب کہ مرض موجود ہو مثلاً ٹائیفائڈ بخار میں CBC نارمل ہوتا ہے جس کا مطلب یہ نہیں کہ "سب ٹھیک ہے" ۔ (جب کہ جواب بلڈ کلچر سے ملتا ہے) کسی بیماری کے دوران کوئی ٹیسٹ ، مثلاً ذیابیطس ، شوگر ، میں بلڈ شوگر ایک ہفتے میں کبھی نارمل اور کبھی زیادہ آسکتی ہے ۔ اگر درمیان سے ایک رپورٹ دیکھ کر رائے قائم کی جائے ، تو کچھ کا کچھ بن سکتا ہے ۔ یعنی ، ہر رپورٹ اپنے سیاق و سباق میں رکھ کر سمجھنا ضروری ہے ۔ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ڈاکٹر نمبر ایک نے کسی ٹیسٹ کا لکھا ، تو ڈاکٹر نمبر دو سے کیوں پوچھا جا رہا ہے ؟ اگر پہلے پر اعتماد نہیں تھا تو اس سے مشورہ لینے کیوں گئے !! سب سے دلچسپ ، اور کبھی کبھی تکلیف دہ ، ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ رپورٹ ملی اور آپ سے فون پر پندرہ منٹ مشورہ کیا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہی عمل پہلے اور بعد میں چار پانچ اور ڈاکٹروں سے بھی کیا جا چکا ہے ۔ صرف آپ کے موجود فون/ واٹس ایپ نمبر کا فائدہ اٹھایا گیا!! ۔ علاج تو کہیں اور کررہے ہیں۔ موجودہ دور میں مفید سہولیات مثلاً فون ، واٹس ایپ ، ہیلپ لائن وغیرہ ، بہت کام کے ذرائع ہیں ۔ جب تک کہ ان کو خواہ مخواہ استعمال نہیں کیا جائے ۔ نیز صرف ٹیسٹ رپورٹ کو اصل اہمیت دینا اکثر بے سود اور کبھی مضر ثابت ہو سکتا ہے ۔