معاشرے کے لیئے کچھ باتیں

ہمارے معاشرے کی بے حسی کی ایک چھوٹی سی مثال.

کلینک میں ایک مریض کی کہانی سنیے. 30 سالہ دمے کا مریض. جس نے ایک مہینے پہلے دکھایا تھا, دیے گئے وقت تین مہینے سے پہلے آگیا . بتایا کہ میں جلدی اس لیے آیا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہو رہی تھی. اسٹیرائیڈ steroids خود سے دوبارہ شروع کردیں. میں نے کچھ تفصیلات پوچھیں تو پتہ چلا کہ ایمبرائیڈری کا کام کرتا ہے , گلشن اقبال میں ایک گلی میں دکان ہے . برابر کی دکان میں مسالے آٹا اور اسی طرح کی اشیاء, بوریوں میں بھر کر لائی جاتی ہیں اور کھلی جگہ پر چھوٹی تھیلیوں میں پیک ہوتی ہیں . پوری گلی کی فضا میں ان اجزا کی گرد جمی رہتی ہے . ادھر ادھر کی دکان والے بھی زکام کھانسی اور گلے کی خرابی کی شکایت کرتے رہتے ہیں . میں نے اس سے پوچھا کہ تم ان سے بات کیوں نہیں کرتے کہ وہ یہ کام یہاں نہ کریں . اس نے کہا یہ میرے بس میں نہیں ہے . تین مہینے پہلے ہی کرائے کی دکان پر یہاں آیا ہوں, اُس کی پکی دوکان ہے . اور وہ نہیں مانتے. میں اسے سمجھاتا رہا کہ تم مجھ سے دوائیاں مزید نہ لکھواؤ بلکہ جو وجہ تمہارے سامنے ہے اس کو درست کرو . وہ میری بات سنی ان سنی کر کے دوائیوں پر اصرار کرتا رہا .

میں نے اسے آخری مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ میں وہاں سے دکان تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہوں!!

ایک عجیب بے بسی کا چہرے پہ تاثر لیے یہ نوجوان کلینک سے اٹھا .

اس سے پہلے بھی اسی طرح کی کہانیاں سامنے آئی ہیں . ایک دمے کی مریضہ کلینک میں رونے لگی کہ میرا سانس کیسے ٹھیک ہو گا . میں آفس میں جاب کرتی ہوں اور باس سمیت بہت سے لوگ سگریٹ پیتے ہیں , اور مجھے ہر وقت کھانسی رہتی ہے . اس کی بھی مجبوری یہی تھی کہ وہ دوسروں کو کیسے منع کرے، جاب ہاتھ سے جانے کا اندیشہ تھا.

ہم کتنے بے حس ہیں اور ہمارا معاشرتی نظام کس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے . صرف اپنی فکر ہے , دوسرا جائے بھاڑ میں . کوئی شنوائی نہیں , کوئی سننے والا نہیں . یہاں تک کہ لوگوں میں اس چیز کا احساس تک ختم ہوگیا ہے کہ اپنی تکلیف اور پریشانی کی شکایت بھی کی جائے .