دَمہ: مفروضات، غلط تصورات کی بیخ کنی ناگزیر

گلوبل انیشیٹیو فارایزما (Global Inititiative for Asthma)کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال مئی کے پہلے منگل کو ’’عالمی یومِ دَمہ‘‘ منایا جاتا ہے۔رواں برس یہ یوم3مئی کومنایا جارہا ہے۔ دَمہ مکمل طور پر قابلِ علاج مرض نہیں، لیکن اس پر کنٹرول اور اس کے شدید حملوں سے بچاؤ ممکن ہے۔ اِسی حقیقت کے پیشِ نظر ہر سال مرض سے متعلق مختلف تھیمز یاسلوگنز متعارف کروائے جاتے ہیں، جن کی بنیاد پر پھر دُنیا بَھر میں معلومات عام کی جاتی ہیں۔رواں برس کے لیے جو تھیم منتخب کیا گیا ہے، وہ "Closing Gaps in Asthma Care" ہے۔

تاکہ دَمے کے علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے نہ صرف معلومات عام کی جائیں، بلکہ اُن پہلوؤں کی نشان دہی بھی ہو، جو مرض کی شدّت اور اخراجات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ دُنیا بَھر،بالخصوص ترقّی پذیر اور کم ترقّی یافتہ مُمالک میں اس مرض کی تشخیص اور علاج تک مساوی رسائی، تربیت یافتہ عملے کی عدم دست یابی، مریض، عام افراد اور طبّی عملے میں معلومات و آگاہی کا فقدان، طویل المدّتی علاج اور اس ضمن میں استعمال کیے جانے والے آلات کی نگرانی اور اس مرض سے متعلق مختلف توہمّات و خدشات سمیت کئی ایسے مسائل ہیں، جن کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، لہٰذا ’’عالمی یومِ دَمہ‘‘ کے ذریعے ان تمام مسائل کی نشان دہی کے ساتھ ان کا حل بھی پیش کیا جاتا ہے، تاکہ مریضوں کو بہتر علاج مہیا کرنے کے ساتھ عوام النّاس کو مرض سے متعلق شعور و آگہی بھی فراہم کی جائے۔

دَمہ، سانس کی نالیوں میں سوزش کا مرض ہے، جو دُنیا بَھر، خصوصاً بچّوں میں عام ہے۔ دراصل اس مرض میں سانس کی نالیاں اس قدرحسّاس ہوجاتی ہیں کہ دھواں، مٹّی یا دیگر الرجنز سے(وہ چیزیں جو الرجی کا سبب بنتی ہیں) واسطہ پڑنے کے نتیجے میں کھانسی، سانس یا سینے میں گھٹن کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ بعض اوقات یہ علامات ازخود یا پھر مخصوص ادویہ کے استعمال سے چند روز میں ٹھیک بھی ہو جاتی ہیں، لیکن مرض وقفے وقفے سے حملہ آور ہوتا رہتا ہے۔ مرض کی خاص علامات میں سانس لیتے ہوئے سیٹی کی سی آواز آنا، سینے میں جکڑن محسوس ہونا اور بار بار کھانسی(جو لمبے عرصے تک رہتی ہے)شامل ہیں۔ ہر مریض میں یہ علامات مختلف بھی ہوسکتی ہیں۔ اگر کسی فرد کو کھانسی، نزلہ زکام رہتا ہو، اور سانس بھی پُھولتی ہو اور عام علاج سے افاقہ نہ ہورہا ہو، تو ماہرِ امراضِ سینہ سے رابطہ ضروری ہے۔

دَمہ جتنا عام مرض ہے، اس سے متعلق معاشرے میں مفروضات بھی اُتنے ہی عام ہیں، جب کہ بعض باتیں تو زبانِ زدِعام ہوکر نسلوں سے منتقل ہورہی ہیں، حالاں کہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر بعض افراد اپنے مشاہدات سے بھی کئی مفروضے گھڑلیتے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ مستند معالجین ان مفروضات کو رَد کریں یا ان کی تشریح کریں، جب کہ عام افراد پر بھی یہ ذمّے عائد ہوتی ہے کہ وہ بلا تحقیق کسی مفروضے یا مشاہدے کو زبانِ زدِ عام نہ کریں۔ آج کل سوشل میڈیا کا دَور ہے، لہٰذا ایسی پوسٹس یا ای میلز فارورڈ نہ کی جائیں، جو مستند ماہر معالج یا کسی تحقیقی ادارے کی جانب سے نہ ہوں۔بصورتِ دیگر نہ صرف ہم اس مفروضے سے متاثر ہوکر خود کو نقصان پہنچائیں گے، بلکہ جھوٹ پھیلانے کا سبب بھی بنیں گے۔

دَمے سے متعلق ہمارے معاشرے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ ایک خطرناک بیماری ہے، جو درست نہیں۔ اصل میں زیادہ تر مریضوں میں دَمےکی علامات الرجی کی صُورت ظاہر ہوتی ہیں، جو سال میں چند روزیا وقفے وقفے سے مخصوص حالات میں مریض کو پریشان تو کرتی ہیں، لیکن علاج کے نتیجے میں آرام آجاتا ہے اور اکثر مریض اس کے بعد صحت مند زندگی گزارتے ہیں ۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ بعض مریضوں میں دَمے کا حملہ شدید ہوتا ہے اور انہیں اسپتال تک داخل کروانا پڑتا ہے، یہاں تک کہ وینٹی لیٹر کی بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے، لیکن ایسے کیسز کی تعداد بہت کم ہے۔

ان میں زیادہ تر وہ کیسز شامل ہیں ،جن میں قدرتی طور پر مرض کی نوعیت شدید ہوتی ہے ۔ اکثر مریضوں میں مرض کے عدم کنٹرول کی وجہ درست علاج نہ ہونا ہے، جس کے نتیجے میں دَمے کا حملہ شدید ہوسکتا ہے۔ یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ اگر کوئی فرد معمولی بیماری کا مناسب علاج نہ کروائے، تو مرض بتدریج شدید نوعیت اختیار کرلیتا ہے ۔ چناں چہ دَمے کے مرض سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اس کے مناسب علاج پر توجّہ دی جائے، تاکہ معمولی مسئلہ بڑھ کر شدّت اختیار نہ کرسکے۔ ایک یہ مفروضہ بھی عام ہے کہ دَمہ چُھوت کا مرض ہے،جو ایک فرد سے دوسرے میں باآسانی منتقل ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں، دَمے کا عارضہ کوئی انفیکشن نہیں، جو کھانسنے، چھینکنے یا سانس لینے سے کسی دوسرے فرد میں منتقل ہو جائے، البتہ اگر کسی مریض کے حلق یا ناک میں جراثیم موجود ہوں، تو ہوسکتا ہے کہ وہ کھانستے ہوئے کسی دوسرے فرد میں منتقل ہوجائیں۔

متعدّد کیسز میں دَمے کا مرض موروثی بھی ہوتا ہے۔ یعنی ماں، باپ یا دونوں میں سے کسی ایک کو دَمے کا مرض لاحق ہو ،تو ان کے بعض بچّوں میں یہ مرض منتقل ہو جاتا ہے، البتہ ضروری نہیں کہ مرض کی شدّت ماں یا باپ جیسی ہی ہو۔ کسی بھی مرض کی منتقلی کا اختیار اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں، اس لیے اس مرض کو چُھوت کی بیماری نہ سمجھا جائے۔ جن بچّوں کو دَمہ لاحق ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں اُن کے بارےمیں یہ خیال عام ہے (اور کچھ ڈاکٹرز بھی والدین کو بتاتے ہیں) کہ ’’جب بچّہ بارہ یا تیرہ سال کا ہو گا، تو مرض بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘

اصل میں ایسا ہر کیس میں نہیں ہوتا۔ بعض اوقات سنِ بلوغت کی عُمرتک پہنچنے پر دَمے کی علامات بہت کم یا سِرے سے ختم ہو جاتی ہیں، لیکن ان میں سے متعدّد کیسز میں کئی برسوں بعد مرض کی علامات دوبارہ ظاہر ہونے لگتی ہیں، لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اس بحث میں اُلجھنے کے بجائے کہ’’ دَمہ مکمل طور پرختم ہوگا یا نہیں‘‘ صرف علاج پر توجّہ دیں،تاکہ مرض کے اثرات بچّے پر کم سے کم مرتّب ہوں اور وہ ایک صحت مند زندگی گزار سکے۔ہر مریض کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا مرض ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے، یہ ایک فطری خواہش ہے۔

مگر چوں کہ یہ ایک قدرتی الرجی کی صُورت ہے اور اکثر افراد تاعُمر اس کا شکار رہتے ہیں، تو یہ سوچ کر کہ ’’کاش! کوئی ایسی دوا مل جائے، جو مرض کا جڑ سے خاتمہ کردے ‘‘خود کو ہلکان نہ کریں، بلکہ اس امر پر توجّہ دی جائے کہ درست علاج کے بعد نارمل زندگی کیسے گزاری جائے، جو کہ اکثر مریض باآسانی گزارسکتے ہیں (ویسے مستقبل میں ایسا ممکن ہو تو کوئی بعید نہیں، لیکن تاحال اس مرض کے جڑ سے خاتمے کا کوئی علاج دستیاب نہیں)۔

ایک اور مفروضہ کہ دَمے کے علاج میں استعمال کی جانے والی ادویہ، خاص طور پر اِن ہیلر یا پمپ مضرِ صحت ہیں یا ان کی عادت پڑ جاتی ہے،بالکل ہی غلط ہے۔ یاد رکھیے، عادت اُن چیزوں کی پڑتی ہے، جو نشہ آور ہوں اور دَمے کے علاج میں استعمال کی جانے والی کوئی بھی دوا نشہ آور نہیں۔ جن افراد میں دَمہ دائمی ہو (تقریباً روز کی شکایت)، یعنی موسمی نہیں، تو انہیں روزانہ کی بنیاد پر (کبھی کبھی ساری زندگی بھی) کوئی نہ کوئی دوا استعمال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو علاج کی ضرورت ہے، عادت نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ذیا بطیس، بلڈپریشر یا عارضۂ قلب کے شکار مریض روزانہ دوا استعمال کرتے ہیں، تاکہ مرض کنٹرول میں رہے اور صحت بھی برقرار رکھی جاسکے۔

اسی طرح دَمے کے متعدّد مریضوں کوعلاج کاکوئی نہ کوئی طریقہ مستقل بنیادوں پراختیار کرنا پڑتا ہے۔ اکثر ماہر ڈاکٹرز دُنیا کے بڑے تحقیقاتی اداروں کی شایع کردہ گائیڈ لائینز کی روشنی میں طویل عرصے تک استعمال کرنے کے لیے اِن ہیلر یا پمپ تجویز کرتے ہیں، کیوں کہ ان کے اندر ادویہ کی مقدار انتہائی قلیل ہوتی ہے، جو براہِ راست پھیپھڑوں تک پہنچ کر فوری افاقے کا باعث بنتی ہے، جب کہ اِن ہیلرز کے فوائد کی نسبت، مضر اثرات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

دَمے کے علاج کے ضمن میں کارٹی سون یا اسٹرائیڈز ایک کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، کیوں کہ دَمہ سوزش کاعارضہ ہے اور سوزش کا تدارک Anti inflammatory ادویہ ہی کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ ان ادویہ میں سرِ فہرست اسٹرائیڈز ہیں۔ اسٹیرائیڈز کے حوالے سے بھی خاصے شکوک وشبہات عام ہیں۔یہ بات درست ہے کہ ان ادویہ کے ذیلی اثرات ہوتے ہیں، لیکن جیسے ایک چُھری کا مناسب استعمال انسان کے کام بھی آ سکتا ہے اور اس کا بے دریغ استعمال نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

اسی طرح اگر کارٹی سون ادویہ ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر بلا ضرورت(گولیوں کی شکل میں)طویل عرصے تک استعمال کی جائیں،تو یقیناً اس کے ضمنی اثرات ظاہر ہوں گے۔ البتہ اِن ہیلر کی صُورت میں کارٹی سون انتہائی مفید ہے کہ اس کے مضر اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دَمے سے متعلقہ مفروضات میں ایک مفروضہ غذائی پرہیز کا بھی ہے۔ ہمارے مُلک میں تقریبا ہر بیماری کے ساتھ غذائی پرہیز ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کچھ بیماریوں مثلاً بلڈ پریشر، ذیابطیس، پیٹ کے امراض میں تو ضروری ہوسکتا ہے، لیکن دَمے میں نہیں۔

اس کے عوامل میں کھانے پینے کی اشیاء کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے غذائی پرہیز غیر ضروری ہی نہیں، صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں ہر طرح کی کھانسی اور سانس کے عارضے میں مبتلا مریضوں کو چاول، ٹھنڈے پانی یا مشروبات، کھٹی چیزوں، مختلف پھلوں، دہی اور دودھ وغیرہ سے پرہیز کروایا جاتا ہے، مگر تحقیق یہ بتاتی ہے کہ انتہائی کم تعداد میں شاید کچھ افراد ان غذائی اجزأ میں سے کسی ایک سے الرجک ہوں، لیکن 99فی صد سے زائد دَمے کے مریضوں کو کھانے یا پینے کی کسی بھی قسم کی اشیاء سے الرجی نہیں ہوتی۔

چناں چہ دَمے کے مریضوں کو تمام صحت بخش، مفید اشیاء اپنے غذائی شیڈول میں شامل رکھنی چاہئیں۔ دودھ، دہی، سبزی پھلوں کا استعمال صحت کے لیےمفید ہے،البتہ انہیں استعمال نہ کرنے کے نتیجے میں جسم میں اہم اجزاء مثلاً کیلشیم، وٹامنز وغیرہ کی کمی واقع ہوجاتی ہے، خصوصاً بچّوں میں اچھی اور متوازن خوراک جسمانی اور ذہنی نشوونما میں مؤثر ثابت ہوتی ہے،لہٰذا دَمے کے شکار مریض خواہ بچّے ہوں یا بڑے تمام صحت بخش اشیاء کا استعمال جاری رکھیں۔ اگر شبہ ہو کہ کسی خاص چیز سے مرض شدّت اختیار کرتا ہے، تو معالج سے مشورہ کرلیں، وگرنہ خود ساختہ احتیاط نہ کریں۔عموماً کہا جاتا ہے کہ اس مرض کے شکار مریضوں کو بھاگ دوڑ یا ورزش نہیں کرنی چاہیے ۔

اگرچہ یہ درست ہے کہ خاص طور پر دَمے کے حملے کے وقت یا اگربیماری کی نوعیت شدید ہو، تو سیڑھیاں چڑھنے یا دیگر محنت کے کام کرنے سے سانس زیادہ پُھولتی اور مرض بڑھتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عام دِنوں میں بھی مریض ورزش نہ کرے، بچّےوں کو کھیلنے کودنے سے روکا جائے یا تیراکی یا دیگر کھیل نہ کھیلنے دئیے۔ بعض مریض، جنہیں ورزش یا بھاگ دوڑ کے بعد سانس پھولنے یا کھانسی کی شکایت ہو، انہیں چاہیے کہ فوری آرام پہنچانے والے Bronchodilators اِن ہیلر ورزش سے پندرہ منٹ یا آدھا گھنٹہ قبل استعمال کرلیں، تاکہ دورانِ ورزش سانس کا مسئلہ نہ ہو۔

دیگر کئی امراض کی طرح دَمے سے متعلق بھی متعدّد مفروضات و توہمّات عام ہیں، جن پر تحقیق کے بغیر یقین کرنا یا آگے بڑھانا مناسب نہیں۔ اگر کسی مفروضے سے متعلق شبہ ہو تو فوری کسی مستند معالج سے رائے لیں۔ درج بالا بیان کردہ تشریحات سمجھیں اور خود کو غیر ضروری مشکلات سے بچاتے ہوئے دَمے کے علاج پر توجّہ دیں۔یاد رکھیے، اگر مستند اور ماہر معالج کی ہدایت کے مطابق ادویہ استعمال کی جائیں، تو دَمے کا تقریباً ہر مریض ایک صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔ (مضمون نگار،انڈس اسپتال اینڈ ہیلتھ نیٹ ورک، کراچی کے شعبہ چیسٹ میڈیسن کے سربراہ ہیں اور بطورپروفیسر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی صدر بھی رہ چُکے ہیں)